سبق آموز تحریریں ۔ (بے چینی ،احساس)

1-    بے چینی






انسان کبھی کبھار خود کو دور سمندر کے کنارے کھڑے تنہا انسان کی طرح محسوس کرتا ہے ۔۔۔ اردگرد لہروں کا شور بھی ہوتا ہے اور ایک عجیب سکوت کا سا سماں بھی ہوتا ہے ۔ خیالوں کی بھیڑ بھی ہوتی ہے مگر معنی خاموش ہوتے ہیں۔ انسان گھنٹوں بیٹھا سوچوں کی گہرائیوں کو تکتا جاتا ہے ۔۔۔ معانی تلاشتا رہتا ہے مگر خالی الذہنی کے عالم میں رہتا ہے۔ اضطراب کا شکار ہوتا ہے مگر بے چینی کا سبب جان نہیں پاتا۔ ذات کی گہرائیوں میں مچا کہرام اسے بے چین کیے رکھتا ہے مگر سطح آب پر سکوت طاری رہتا ہے ۔۔۔ سوچوں کے دریاؤں کو اپنے اندر سموتا رہتا ہے اور تخیلات سطح آب سے بھاپ کی مانند بلندیوں پر پرواز کر جاتے ہیں۔ خیالوں کے آوارہ بادل فضاؤں میں معلق رہتے ہیں ۔ بے چینی بڑھتی جاتی ہے۔۔۔ بادل گہرے ہوتے جاتے ہیں ۔۔۔ گھٹاؤں کی تاریکی چھانے لگتی ہے ۔۔۔ سوچوں کی ہوائیں چلتے ہیں ۔۔۔ بادل برسنے لگتے ہیں اور بارش کا ہر گرتا قطرہ ذات میں ارتعاش پیدا کرتا، جذبات کو چھیڑتا چلا جاتا ہے ۔۔۔ ہر گرتا قطرہ سوچوں کی ایک نئی لہر پیدا کرتا ہے ۔۔۔ ہر قطرے کی جنبش اک نیا خیال پیدا کرتی ہے ۔ خیالوں کی بھیڑ میں اک عجیب انتشار پیدا ہوتا ہے اور سمندرِذات میں اک کہرام سا برپا ہو جاتا ہے ۔۔۔۔
2- احساس




سکول میں استانی نے بچوں سے ٹیسٹ میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والوں کو انعام کا وعدہ کیا کہ جو بھی فرسٹ آیا اس کو نئے جوتے ملیں گے۔ ٹیسٹ ہوا سب نے یکساں نمبرات حاصل کیے۔  اب ایک جوڑا سب کو دینا نا ممکن تھا اس لیے استانی نے کہا کہ چلیں قرعہ اندازی کرتے ہیں۔ جس کا بھی نام نکل آیا اس کو یہ نئے جوتے دیں گے اور قرعہ اندازی کے لیے سب کو کاغذ پر اپنا نام لکھنے اور ڈبے میں ڈالنے کا کہا گیا۔

استانی نے ڈبے میں موجود کاغذ کے ٹکڑوں کو مکس کیا تاکہ کسی کی حق تلفی نہ ہوجائیں اور پھر سب کے سامنے ایک اٹھایا جوں ہی کھلا تو اس پر لکھا تھا وفا عبد الکریم سب نے تالیاں بجائی۔   وہ اشکبار آنکھوں سے اٹھی اور اپنا انعام وصول کیا۔ کیوں کہ وہ پٹھے پرانے کپڑوں اور جوتے سے تنگ آگئی تھی۔ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا اور ماں لاچار تھی اس لیے جوتوں کا یہ انعام  اس کے لیے بہت معنی رکھتا تھا۔

جب استانی گھر گئی تو روتی ہوئی یہ کہانی اپنے شوہر کو سنائی ۔جس پر اس نے خوشی کا اظہار کیا اور ساتھ رونے کی وجہ دریافت کی تو استانی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی کہ مجھے رونا وفا عبد الکریم کے جوتوں سے زیادہ دیگر بچوں کی احساس اور اپنی بے حسی پر آتا ہے۔ جب میں نے ڈبے میں موجود دیگر کاغذ کے ٹکڑوں کو چیک کیا تو سب نے ایک ہی نام لکھ دیا تھا “وفا عبد الکریم” ان معصوم بچوں کو وفا عبد الکریم کے چہرے پر موجود لاچاری کے درد اور کرب محسوس ہوتا تھا ۔لیکن ہمیں نہیں جس کا مجھے افسوس ہے۔

میرے ایک استاد بتایا کرتے تھے کہ بچوں کے اندر احساس پیدا کرنا اور عملا سخاوت کا درس دینا سب سے بہترین تربیت ہے۔ ہمارے کئی اسلاف کے بارے میں کتابوں میں موجود ہے کہ وہ خیرات، صدقات اور زکوات اپنے ہاتھوں سے نہیں دیتے بلکہ بچوں کو دے کر ان سے تقسیم کرواتے تھے جب پوچھا گیا تو یہی وجہ بتائی کہ اس سے بچوں کے اندر بچپن سے انفاق کی صفت اور غریبوں و لاچاروں کا احساس پیدا ہوتا ہے_________🔴

Post a Comment

0 Comments